قرآن اور سائنسی حقائق — جدید سائنس کی دریافتیں جو قرآن 1400 سال پہلے بیان کر چکا ہے

قرآن اور سائنسی حقائق وہ موضوع ہے جو ہر انسان کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ یہ مضمون اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن صرف روحانی نہیں بلکہ سائنسی رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ قرآن اور سائنسی حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ کتاب آج کی سائنس سے کہیں آگے ہے۔ عقل والوں کے لیے اس میں بے شمار نشانیاں موجود ہیں۔

قران مجید اللہ تعالی کی وہ کتاب ہے جو انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل فرمائی گئی ہے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں یہ صرف مذہبی کتاب ہے یہ صرف مذہبی کتاب ہی نہیں بلکہ تمام انسان جو اس دنیا میں موجود ہے ان لوگوں کی رہنمائی کرتی ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی مدد کرتی ہے قران پاک میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں یعنی قران میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ اس میں نشانیاں موجود ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں اگر انسان اپنی عقل کا استعمال کر کے قران مجید کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کو اپنے تمام سوالوں کا جواب مل جاتا ہے جو اس کو قدرت کی طرف دیکھ کر اس کے ذہن میں اتے ہیں کیونکہ انسان کی یہ فطرت ہے وہ جس بھی چیز کو دیکھتا ہے وہ یہی سوچتا ہے کہ یہ چیز کیسے کام کر رہی ہے اور کتنے سالوں سے یہ کام کر رہی ہے ان سب چیزوں کا جواب اللہ تعالی نے قران پاک میں رکھا ہے اس کے علاوہ اللہ تعالی نے انسانوں کو دعوت دی ہے
کہ وہ اس قران کا مطالعہ کریں جو کہ خدا کی طرف سے نازل کی ایک کتاب ہے جس میں تمام جہانوں کے لیے رہنمائی ہے اور اپنے سوالوں کے جواب تلاش کریں جو کہ ان کو اس کتاب کے ذریعے سے مل سکتے ہیں اج حیرانی کی بات ہے جو دریا جدید الات اور مشینری کی وجہ سے سائنس دریافت کر رہی ہے وہ 1400 سال پہلے قران مجید میں اللہ تعالی نے بیان کر دیے ہیں اج کے اس ارٹیکل میں ہم اسی کے بارے میں بات کریں گے کہ کون کون سی ایسی دریا ہیں جنہیں سائنس نے تو اج ڈسکور کیا ہے مگر قران مجید نے 1400 سال پہلے ذکر فرما دیا تھا

🌌 1. کائنات کا پھیلاؤ (Expanding Universe)

سب سے پہلے اگر بات کی جائے کہکشاؤں کے بارے میں تو یہ اج کے ہر انسان کو پتہ ہے کہ سائنس یہ کہتی ہے کہ کہکشائیں جب سے پیدا کی گئی ہیں مسلسل پھیل رہی ہیں اور ایک دوسرے سے دور جاتی جا رہی ہیں کیونکہ یہی وہ حقیقت ہے جسے Edwin Hubble نے 1929 میں دریافت کیا، اور آج پوری دنیا جانتی ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ مگر حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ جو دریافت سائنس نے اج سے سو سال پہلے یعنی 1929 میں دریافت کی تھی اس کا ذکر قران مجید نے اج سے 1400 سال پہلے یعنی جب قران نازل ہوا تھا تب ہی کر دیا تھا-

قرآن کہتا ہے:

“اور ہم نے آسمان کو اپنی قدرت سے بنایا، اور ہم ہی اسے پھیلا رہے ہیں۔”
📖 (سورۃ الذاریات: 47)

سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ الہامی کتاب نہیں ہے تو 1400 سال پہلے ایک انسان کو یہ کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے جس کی تحقیق اج سائنس نے کی ہے جس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ الہامی کتاب ہے اور قران کا یہ دعوی درست سمجھا جاتا ہے جو کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں

🌊 2. سمندروں کا بیچ میں نہ ملنا (Barrier Between Seas)

قرآن کہتا ہے:

“دو سمندروں کو ملا دیا، وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ مگر ان کے درمیان ایک پردہ ہے، جو انہیں حد سے بڑھنے نہیں دیتا۔”
📖 (سورہ الرحمٰن: 19-20)

یعنی قران یہ دعوی اس وقت میں کر رہا ہے جس وقت میں دنیا کو ایکسپلور کرنا انتہائی مشکل تھا اور نہ ہی ایسے جدید سائنسی الات موجود سے جن کی مدد سے دنیا کی تلاش کی جا سکے مگر اب 1400 سال بعد جب دنیا کے پاس ایسے الات موجود ہیں جس سے دنیا کے ہر کونے میں جایا جا سکتا ہے تب ہر انسان کو پتہ چل چکا ہے کہ ایسے سمندر بھی موجود ہیں جس کا ذکر قران نے کیا ہے جن کی ایک طرف تو کھارا پانی ہے دوسری طرف میٹھا پانی ہے مگر وہ اپس میں نہیں ملتے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ قران نے دعوی جو 1400 سال پہلے کیا تھا وہ اج سائنس کے جدید الات کی مدد سے درست ثابت ہو رہا ہے

🪨 3. پہاڑ زمین میں کیل کی طرح (Mountains as Pegs)

قران کہتا ہے
کیا ہم نے زمین کو بچھونا (فرش) نہیں بنایا؟
اور پہاڑوں کو میخیں (کیل) نہیں بنایا؟”

یعنی قران یہ 1400 سال پہلے یہ دعوی کر رہا ہے کہ ہم نے پہاڑوں کو بطور میخیں زمین میں گاڑ دیا ہے جس کا معائنہ کرنا 1400 سال پہلے ناممکن تھا کیونکہ زیر زمین دیکھنا کیا ہے بہت مشکل تھا مگر اج کی سائنس نے یہ سہولت دی ہے کہ زیر زمین بھی دیکھا جا سکتا ہے جس پر سائنس یہ دعوی کر رہی ہے کہ پہاڑ میخوں کی طور پر زمین پر گاڑے گئے ہیں یعنی کہ ان کی جڑیں بہت لمبی ہے جو زمین کو ساکن رکھنے میں مدد دیتی ہیں اللہ اکبر یہی وہ چیز ہے جس کا ذکر قران مجید 1400 سال پہلے کر رہا ہے

☄️ 4. لوہے کا آسمان سے آنا (Iron Came from Space)

قرآن کہتا ہے:

“اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں سخت قوت ہے۔”
📖 (سورہ الحدید: 25)

یعنی قران لوہے کے نازل ہونے کی بات کر رہا ہے یعنی کہ لوہا زمین کی اپنی چیز نہیں ہے یہ کسی اور جگہ سے زمین پر نازل کیا گیا ہے اج کی جدید سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ لوہا ایک سیارے کی شکل میں تھا جو کہ زمین سے ٹکرایا اور زمین میں ہی رہ گیا جس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ لوہا زمین پر پیدا نہیں ہوا بلکہ اسے اسمان سے اتارا گیا ہے جی ہاں دوستو یہ وہی لوہا ہے جو اج ہم اپنی زندگی میں یوز کر رہے ہیں جسے اللہ تعالی نے اسمان سے نازل فرمایا ہے اور جس کا اقرار اج سائنس بھی کر رہی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز کے بارے میں قران میں موجود ہے مگر ان کے لیے جو عقل رکھتے ہیں

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قران کا دعوی صرف دعوی ہی نہیں ہے بلکہ یہ تمام انسانوں کے لیے مکمل رہنمائی کا ذریعہ ہے مگر وہ جو اگر رکھتے ہیں اس کے علاوہ ہم نے یہ ریسرچ کیا ہے کہ بہت سے سائنس دان ایسے ہیں جو باقاعدہ قران مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ خیال اپنے ذہن میں لائے ہیں کہ یہ کائنات کیسے چل رہی ہے اور قران اس کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے اگر اپ مزید اس طرح کے ارٹیکل چاہتے ہیں جس میں یہ بتایا جا سکے کہ اور کون کون سی سائنس کی تجربات ہیں جو قران نے ظاہر کیے ہیں تو اپنی رائے کمنٹ میں لازمی بتائیے ہم اس پر ایک اور ارٹیکل لکھ دیں گے

This article is also available in English.

Leave a Comment