قرآن مجید میں ایمان اور نیک اعمال کا انجام جنت بتایا گیا ہے، جبکہ کفار اور گناہگاروں کا انجام جہنم۔ جانئے سورۃ البقرہ اور سورۃ النبأ سے ملنے والا سبق۔
موت ایک زندہ حقیقت ہے اور دنیا کا کوئی بھی انسان اس کو جھٹلا نہیں سکتا ہر ایک چیز جو پیدا ہوئی ہے اسے ایک نہ ایک دن مرنا ہے اور اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے اسی کا نام موت ہے کئی مذاہب کے مطابق موت اخری مراحل ہے اس کے بعد کوئی زندگی نہیں مگر دین اسلام کے مطابق موت کے بعد انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ ان کو جو زندگی دی گئی تھی اس کو اس انہوں نے کہاں گزارا اور کن کن کاموں میں گزارا ہے اس کے علاوہ ایک پکا ثبوت میں موجود ہوگا جس میں انسان کی زندگی کے تمام کارنامے لکھے گئے ہوں گے اس کے بعد انسان کی جزا اور سزا کا فیصلہ کیا جائے گا اگر تو انسان نے اچھے کام کیے ہوں گے اور اللہ تعالی کو ایک معنی ہوگا تو اس کے لیے جنت کی راہ ہموار کر دی جائے گی دوسری طرف وہ انسان جس نے ساری زندگی اللہ تعالی کی نافرمانی کی اور ساری زندگی برے کام ہی کی ہے اس کے لیے جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اج جہنم کو اپنی انکھوں سے دیکھ لو جس کو تم کو تم پکارتے تھے اور کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جس کی تم خواہش کرتے تھے دوستو موت ایک حقیقت ہے اور اس کے بعد دوبارہ زندگی بھی ایک حقیقت ہے جس کو کوئی بھی انسان جھٹلا نہیں سکتا ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی بھی شے بے مقصد پیدا کی گئی ہو اگر ہم اج کے دور میں کسی بھی چیز کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی شے جو اس دنیا پر موجود ہے کسی نہ کسی مقصد کے تحت پیدا کی گئی ہے اسی لیے انسان کو بھی کسی مقصد کے تحت پیدا کیا گیا ہے جو اس کے مرنے کے بعد اس کو بتایا جائے گا کہ اس نے اپنی زندگی میں کیا کیا اور اسے کیا حاصل ہوا اس ارٹیکل میں ہم موت کے مراحل کے بارے میں بات کریں گے کہ مرنے کے بعد انسان کے ساتھ کیا کیا ہوگا

موت کا لمحہ (الْمَوْت)
یہ موت کا وہ مرحلہ ہے جس میں انسان پر موت طاری ہو جاتی ہے کہا جاتا ہے کہ یہ سب سے دردناک مرحلہ ہوتا ہے جس میں جب فرشتہ انسان کی جان نکالتا ہے تو اسے دنیا جہان کا درد محسوس ہوتا ہے خاص طور پر کافر کو اتنی تکلیف ہوتی ہے جس کو وہ برداشت نہیں کر سکتا اور اس کی اس وقت صرف یہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کی جان نکل جائے اور اس کا اس درد سے چھٹکارا حاصل ہو جائے کی جانیں اسانی سے نکل جاتی ہیں جو کہ حقیقی مومن ہوتے ہیں قران مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
(آل عمران 3:185)
’’ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘
یعنی کہ جتنے بھی جاندار اس زمین پر پیدا ہو چکے ہیں ان کو ایک نہ ایک دن موت لازمی انی ہے دوسری طرف اللہ تعالی سورہ سجدہ کی ایت نمبر 11 میں فرماتا ہے
کہو کہ تمہاری جان قبض کرنے والا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری جان قبض کر لے گا اور تم پھر اپنے رب کے حضور لوٹائے جاؤ گے
روح کا سفر اور اس کا انجام
یہ وہ مرحلہ ہے جہاں روح سفر کرتی ہے یعنی عالم برزخ کی طرف جس میں نیک لوگوں کے ساتھ بہت ہی اچھا فرشتے سلوک کرتے ہیں اللہ تعالی فرماتا ہے
اطمینان والی جان اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی پس میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں چلی جا
اس کے برعکس کافروں کے بارے میں بڑا سختی کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے قران پاک میں اللہ فرماتا ہے
“اور اگر تم دیکھو جب فرشتے ان کی جانیں قبض کرتے ہیں، ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مار رہے ہوتے ہیں، اور کہتے ہیں: چکھو آگ کا عذاب۔”
(الانفال 8:50)
برزخ کی زندگی (عالمِ برزخ)
موت کے بعد تمام انسانوں کو ایک درمیانی زندگی میں داخل کیا جاتا ہے جو کہ ان کی جزا اور سزا کے درمیان کی زندگی ہوتی ہے جسے عالم برزخ کہا جاتا ہےاور اللہ پاک قران پاک میں فرماتا ہے
“اور ان کے پیچھے ایک آڑ ہے (برزخ) قیامت کے دن تک۔”
(المؤمنون 23:100)
یہ مرنے کے بعد انسان کی زندگی کا وہ مرحلہ ہے جس میں تمام انسانوں کو ایک جگہ پر رکھا جاتا ہے جسے برزخ کہا جاتا ہے اس میں جو لوگ مسلمان ہوتے ہیں اور نیک لوگ ہوتے ہیں وہ تو سکون میں ہوتے ہیں مگر جو لوگ کافر ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہوتا ہے ان لوگوں پر اللہ تعالی کا عذاب برستا ہے اور قیامت تک کے لیے ان پر اللہ کا عذاب برستا رہے گا

دوبارہ زندہ کیا جانا (بعث بعد الموت)
یہ وہ مرحلہ ہے جہاں تمام انسانوں کو پھر سے زندہ کیا جائے گا یعنی عالم برزخ سے ان کو نکالا جائے گا اور اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا اللہ پاک قران پاک میں فرماتے ہیں
پھر تم ضرور مر جاؤ گے، پھر قیامت کے دن یقیناً تم اٹھائے جاؤ گے۔”
(المؤمنون 23:15-16)
قیامت کا دن (یومُ القیامہ)
ان سب کے بعد جو ہمارا اتا ہے وہ پانچواں مرحلہ ہے جس میں تمام انسانوں کو اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا اور ان کا حساب کتاب ہوگا جس کے اعمال اچھے ہوں گے اور نیک عمل کیا ہوگا اس کے علاوہ اللہ پر ایمان لایا ہوگا تو اس کے لیے جنت کا فیصلہ کر دیا جائے گا اس کے علاوہ جس کے مال برے ہوں گے اور جس نے ساری زندگی اللہ کو جھٹلایا ہوگا اور لوگوں پر ظلم کیا ہوگا اس کے برے اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا اور اس کے لیے جہنم کا فیصلہ کر دیا جائے گا قران پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
پس جس کا پلڑا بھاری ہوگا، وہ کامیاب ہوگا۔ اور جس کا پلڑا ہلکا ہوگا، اس کا ٹھکانا ہاویہ (جہنم) ہوگا۔”
(القارعہ 101:6-9)
جنت اور جہنم کی دائمی زندگی
اس مرحلے میں وہ زندگی شامل ہے جو کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوگی یعنی کہ اگر جو کوئی بھی جنت میں ہے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں رہے گا اور جو کوئی دوزخ میں ہے وہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہے گا اس میں اللہ تعالی نے تمام لوگوں کا فیصلہ کر دیا ہوگا کہ کون جنت میں رہے گا اور کون دوزخ میں رہے گا اسی لیے یہ ہمیشہ کی زندگی ہوگی اللہ تعالی قران پاک میں فرماتا ہے
“یقیناً جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، ان کے لیے جنت کے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔”
(البقرہ 2:25)
اور کافروں اور گنہگاروں کے لیے اللہ تعالی فرماتا ہے
“یقیناً جہنم گھات میں ہے، سرکشوں کا ٹھکانہ۔”
(النبأ 78:21-22)
اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں ایسے اعمال کرنے چاہیے جو اللہ تعالی کے نزدیک ہمارے لیے بہتر ہے اور اللہ تعالی کے حکم کی پیروی کرنی چاہیے دنیا کی خواہشوں اور انسانوں کے پیچھے لگ کر اپنے اپ کو جہنم کا ایندھن بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے
this article is also available in english.
1 thought on “ایمان اور نیک اعمال کا انجام: قرآن کی روشنی میں جنت اور جہنم”