کیا آپ کی نیکیاں قبول ہو رہی ہیں یا ضائع ہو رہی ہیں؟

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ .

آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ ’’ تمام اعمال کا دارومدار نیت
پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا ۔ پس جس کی ہجرت ( ترک وطن ) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو ۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے ۔‘‘

ہر عمل کی نیت اس کی اصلیت پر ہے یعنی انسان کو وہی ملے گا جس کی نیت کر کے اس نے وہ کام کیا اللہ تعالی اس کو وہی اجر دے گا جس کی اس نے نیت کی

اسلام میں نیت کو پڑھی اہمیت حاصل ہے یعنی ہر شخص کے اعمال کا ثواب اس کو اس کی نیت پر ملے گا نیت وہ ہے کہ جس کو سوچ کر انسان اپنے کام کا ارادہ کرتا ہے اگر نیت اچھی ہوگی کام چاہے اچھا ہو یا نہ ہو تو اس کا بھی اس کو ثواب ملے گا اگر نیت بری ہوگی تو چاہے کتنے ہی احسن طریقے سے کام کو سرانجام دیا جائے تو اس کا ثواب نہیں ملے گا کیونکہ جڑ سے نیت ہی غلط تھی اس کی مثال اس طرح سے لی جا سکتی ہے کہ ایک شخص مسجد بنواتا ہے اور اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ یہ مسجد بنوائے گا تو سب لوگ اس کو دین دار کہیں گے اور اس کے گاؤں میں اس کی عزت بڑھ جائے گی تو یہ نیت غلط ہوگی جبکہ اس کی صحیح نیت یہ ہوگی کہ وہ صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنائے جس سے نمازیوں کو نماز پڑھنے میں تنگی نہ ائے یعنی اگر لوگوں کو دکھانے کے لیے مسجد بنائی جائے تو یہ نیت غلط ہے اس کا ثواب نہیں ملے گا اور اگر اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنائی جائے گی تو اس کا ثواب دگنا ملے گا اس لیے اس بات سے یہ ظاہر ہے کہ دل میں جو نیت ہے اس کو اللہ تعالی جانتا ہے اور اس کے مطابق ہی اللہ تعالی انوال کو دیکھتا ہے یعنی اگر کسی نے نیکی کا ارادہ کر کر کوئی نیکی کی ہے اور اس کی نیت ٹھیک تھی تو اس کے ہاں اللہ تعالی ثواب لکھ دے گا اگر کسی کی نیت ہی بری تھی تو چاہے کتنے بھی اچھے طریقے سے کوئی کام سرانجام دے رہا ہو اس کی نیت غلط تصور کی جائے گی اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا ہر کام کرنے سے پہلے نیت کو درست رکھیں اگر ہم کوئی کام اللہ کی خاطر کر رہے ہیں تو ہماری نیت یہی ہونی چاہیے نہ کوئی لوگوں کو دکھانے کے لیے اس کی ایک اور مثال ایسے لی جا سکتی ہے کہ کوئی شخص روزے اس لیے رکھے کہ لوگ اسے عبادت گزار سمجھیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسا انسان بغیر کسی وجہ کے سارا دن بھوکا پیاسا رہتا ہے لیکن اس کو اس کا ثواب نہیں ملتا اصلی ثواب حاصل کرنے کے لیے یہ نیت ہونا لازمی ہے کہ اس نے روزہ صرف اور صرف اللہ کی ذات کے لیے رکھا ہے نہ کہ لوگوں کو دکھانے کے لیے کہ وہ کتنا عبادت گزار ہے اس لیے جس کی نیت اللہ تعالی کو راضی کرنے کی تھی اس کا تو روزہ قبول کر لیا جائے گا مگر جس کی نیت روزہ لوگوں کو دکھانے کے لیے رکھنا تھا اس کا روزہ قبول نہیں ہوگا

“اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ”
(سورۃ المائدہ: 27)
“اللہ صرف متقی لوگوں کے اعمال قبول کرتا ہے۔”

Leave a Comment